محکمہ تعلیم میں سکولوں کی نجکاری
یہی تو اس ملک کی بد نصیبی ہے, کہ اس کو وجود میں آئے 76 سال ہو گئے ہیں لیکن یہاں کرپشن, نا انصافی , ظلم نے اتنے پنجے گاڑ لیے ہیں کہ تعلیم جیسا محکمہ بھی محفوظ نہیں ہے. جس محکمے سے نسلوں کی تعمیر ہونی تھی اس میں ہر دور میں کرپشن , ناانصافی شکلیں, صورتیں اور حالتیں بدل بدل کر ہو رہی ہے, اور اس کے پیچھے وہی کرپٹ اور بیمار ذہنیت اور سوچ ہے, جو آج تک تبدیل نہ ہو سکی, کیونکہ ہمارا سیاسی نظام تو تبدیلی کے مدارج سے گزر تو رہا ہے لیکن اس نظام کے اہلکار وہی کرپٹ, نا لائق, بے شعور سیاسی قیادت ہے جو اپنے مفاد کے لیے ہمیشہ نظام سے فاہدہ لینے کے لیے اصولوں کی دھجیاں اْڑا دیتے ہیں, جس کا براہ راست فاہدہ ان کی چاپلوسی کرنے والے مکار و عیار ورکرز کو ہوتا ہے, اور اس کرپشن کے سنگم کو کامیاب کرنے کے لیے یہ ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہوتے ہیں.
پنجاب میں ہزاروں کی تعداد میں گورنمنٹ سکول ہیں جہاں لاکھوں کی تعداد میں غریب و متوسط طبقے کے بچے تعلیم حاصل کر رہیں ہیں, پڑھنے والوں کا تعلق بھی متوسط طبقے سے ہے اور پڑھانے والے بھی متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں, مزید ان گورنمنٹ سکولوں میں پڑھانے والے ٹیچرز بھی انہی سرکاری سکولوں سے فارغ التحصیل ہیں, گو کہ بہت سے مسائل ہیں,اس میں کوالٹی ایجوکیشن, تربیت, انفراسٹیکچر, کرپشن, نا اہلی موجود ہیں, لیکن ان تمام مسائل کے باوجود لاکھوں کی تعداد میں بچے ان سکولوں سے 20 روپے فیس دے کر کسی نہ کسی درجے پر علم و شعور حاصل کر رہیں ہیں, الغرض اگر مجموعی صورت حال کو دیکھا جائے تو یہ کہنا پڑتا ہے کہ یہی گورنمنٹ کے سکول غریب کی امید ہیں, خاص طور پر اس مہنگائی کے دور میں, جب ایک کاپی کی قیمت 150 تک ہے.......
لیکن افسوس جو خطرہ کئی سالوں سے پرورش پا رہا تھا اب وہ تنا ور وجود حاصل کر چکا ہے, اب یہ تمام کام اس عارضی اور کٹ پتلی حکومت سے کروایا جا رہا ہے, وہ ہے ان اداروں کی نجکاری, بظاہر تو اس کو تعلیم دوست قدم بتایا جا رہا ہے لیکن پس پردہ اس کے مقاصد اور منصوبے بہت ہی بیناک ہیں, اس بات کو اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ صرف گورنمنٹ ہائی سکول مری کی زمین اربوں کی ہے, کیونکہ اس وقت موجودہ سکول کی زمین کی مالیت مارکیٹ ریٹ کے مطابق 60 سے 70 لاکھ روپے مرلہ ہے, تو اس حساب سے کئی کنالوں کا ریٹ آپ خود ہی لگا لیں,
مزید جو سکول اس سے پہلے Private NGOs کے حوالے کیے گئے, اُن کی کارگردگی بھی قابل زکر نہیں ہے, تا کہ اُس کو احتمام حجت کے طور پر پیش کیا جا سکے, ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس محکمہ تعلیم کا قبلہ ٹھیک کیا جاتا, کرہشن کو خاتمہ کیا جاتا, اس ادارے سے سیاسی مداخلت ختم کی جاتی اور ان متوسط اور غریب بچوں کو کوالٹی ایجوکیشن دی جاتی لیکن معاملہ اس سے برعکس کیا جا رہا ہے اب ان سے یہ بنیادی حق چھین کر ان کو مستقل غلام بنانے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے..........واجد نواز
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں