صوبہ پنجاب کی اس وقت کل آبادی بارہ کروڑ چوہتر لاکھ چوہتر ہزار ہے
جس میں اس وقت پرائمری سکولز 32360 مڈل سکولز 7218 ہائی سکولز 8008 جبکہ 838 ہائیر سکینڈری سکولز ہیں اورکل سکولز 48504 سکولز ہیں ۔5837960 بوائز اور 5999171 گرلز زیر تعلیم ہیں ۔ کل ایک کروڑاٹھارہ لاکھ اڑتیس ہزار چھ سو چار بچیاں بچے زیر تعلیم ہیں ۔
ان سکولز میں ٹیچنگ سٹاف کی گریڈ 14 سے لیکر گریڈ 20 تک 450554 اسامیاں جسمیں 338647 اساتذہ کام کررہےہیں جبکہ 111907 اسامیاں خالی ہیں .جسمیں پرائمری ٹیچرز کی 70882 اسامیاں ۔مڈل کے 22230 ہائی کے 7130 سبجیکٹ سپیشلیسٹ کی 6990 اور گریڈ 17 سے گریڈ 20 تک ہیڈز کی 4033 اسامیاں خالی ہیں ۔
موجودہ کام کرنے والے اساتذہ کی تعلیم ماسٹر لیول 70% گریجویٹس چار سالہ 13 % گریجویٹس دوسالہ 05% انٹر 2% اور میٹرک 5% ہیں ۔
جبکہ 65932 کے قریب سپورٹنگ سٹاف گریڈ 1 سے گریڈ 17 تک کام کررہا ہے .
پوری دنیا میں محکمہ تعلیم گورنمنٹ کے زیرنگرانی ادارہ کام کررہا ہے مگر بدقسمتی سے پاکستانی حکمران طبقہ اور اور اس محکمہ میں ڈیوٹی سرانجام دینے والی بیوروکریسی اس نظام تعلیم سے استفادہ کرنے والے نہیں ہیں اور نہ انکی نسلیں اس نظام تعلیم کا حصہ ہیں جب سے نظام تعلیم لاگو کیا گیا وقت کی ضرورت کیساتھ کیڈر وائز اور مضمون وائز اساتذہ کی اسامیاں تخلیق کی جاتیں رییں ساتھ آبادی کے اضافہ کیساتھ ان اسامیوں میں بھی اضافہ ہوتا رہا ۔
اب جبکہ کل منظور شدہ اسامیوں کےسوالاکھ اساتذہ اورہیڈ ٹیچرز کے منظور شدہ اسامیوں کے 60 % اسامیاں خالی ہیں اور بطور گریڈ 16 ہیڈز انچارج کام کر رہے ہیں اس سے نہ صرف انکے مضمون کی پڑھائی متاثر ہو رہی ہے بلکہ سکولز کی کارگردگی بھی متاثر ہورہی ہے ۔پرائمری سے لیکر نصاب تو جدید دیا جارہا ہے لیکن اس جدید نصاب سے ہم آہنگ وقت پر مضمون وائز ٹیچر تسلسل مہیا نہیں کیا جارہا ہے ۔جسکی بدولت آرٹس کا ٹیچر سائنس ۔سائنس کا ٹیچر آرٹس پڑھانے پر مجبور ہے ۔پڑھانا اور سیکھانا دو علیحدہ عمل ہیں۔پرائمری ایجوکیشن پڑھانے کی نہیں سکھانے کی ایجوکیشن ہے جس کے لیے انگلش ارود خوش ماہر خطاطی فن آرٹس ماہر زبان اردو ۔انگلش۔عربی ۔اور یا متعلقہ مضمون کا ہونا ضروری ہے ۔ مڈل میں زراعت ۔جغرافیہ ۔تاریخ ۔کمپیوٹر ۔انگلش ۔ریاضی اور سائنس میں جدت تو لائی گئ لیکن عصر حاضر کے مطابق اساتذہ کو نہیں لایا جا رہا ہے۔ساتھ ہائی سکولز میں ماہر مضامین کی بھی وقت کے لحاظ سے ریکروٹمنٹ نہ کی گئی ۔
اب ان تمام پرشدہ اسامیوں کو بجٹ کیساتھ تولا تو جاتا ہے لیکن وقت ۔ جدت ۔اور آبادی کے مطابق ایک ترتیب اور تسلسل سے پر نہیں کیا جارہا ہے ۔
صوبہ کی پالیسز کو وہ پالیسی میکر تشکیل دے رہےہیں جو نہ تو آبادی کی تناسب ذہنی و معاشرتی لیول سے واقف ہیں اور نہ انکو اسکا احساس ہے کہ جو وہ لیول تھونپ رہے ہیں اسکے تھونپنے سے انجام کیا ہو سکتا ہے ؟
ان تمام امور سے کوالٹی آف ایجوکیشن پر شدید ترین اثرات پڑ رہے ہیں ۔جسکا ذمہ آخر نافذ کار استاد کہلاتا ہے ۔اور اسے سزا کا مستحق ٹھرایا جاتا ہے ۔
اس وقت جو محکمہ تعلیم میں چیک اینڈ بیلنس سسٹم ہے وہ انتہائی ناقص اور بے سود ہے ۔پورے سسٹم خاطر خواہ نتائج کے حصول میں کسی پالیسی میں تسلسل نہیں ۔
سیاسی عدم استحکام ۔ان پڑھ سیاسی اشرافیہ تمام سیاسی پارٹیوں پر قابض ہے جو برسر اقتدار آکر اپنی شہرت کے لیے ان محکموں کو گھر کو لونڈی سمجھتی ہے ۔غیر قانونی اثر رسوخ اور اور فوائد کے لیے خلاف میرٹ ایجوکیشن آفیسران کی تقرری اس محکمہ تباہی کا پیش خیمہ ہے ۔اور کوئی بھی سیاسی پارٹی اس سے دوری نہ حاصل کر سکی ۔بالخصوص درجہ چہارم ملازمین سے کلرک تک کی سیاسی بھرتی اس وقت محکمہ ایجوکیشن کے گلے ہڈی بنی ہوئی ہے ۔
اس وقت پورے پنجاب میں ان اساتذہ سے غیر تدریسی کام مثلا مردم شماری ۔خانہ شماری ۔ووٹر لسٹ کی تدوین ۔پولیو ۔سیلاب زدگان کی مدد ۔فری آٹا سکیم ۔الیکشن ٹریننگز الیکشنز ڈیوٹی ۔میٹرک ایف اے بورڈ امتحانات ڈیوٹیز ۔ڈینگی مکاؤ سکیم وغیرہ پر پورا سال مختلف اوقات میں لی جاتی ہیں جوکہ بچوں اور تعلیم کے ساتھ انتہاء درجہ کی زیادتی ہے جس پرسیاست دانوں سمیت بیوروکریسی کو چپ لگی ہے
محکمہ سکولز پنجاب کی اکثر زمینیں محکمہ کے نام فی سبیل اللہ وقف کی گئی ہیں یا مخیر حضرات نے خرید کر دیں ۔ان اکثر میں بنیادی ضرورتیں بھی ڈونیشنز سے اہل علاقہ نے پوری کیں ہیں ۔
اب پنجاب حکومت ایک ہزار سے زاہد سکولز مسلم ہینڈز کے حوالے کرنے اور مختلف اضلاع میں چلنے والے اچھے سکولز اے سیز کے ذریعے ڈی سیز کے ماتحت کرکے انہیں ماڈلز کا نام دیا جارہا ہے ۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اچھے سکولز جن کے ہیڈز اور سٹاف نے ٹیم ورک اور محنت سے سکولز کا نام بنایا انکو بنیاد بنا کر اس طرح کا سٹاف تسلسل سے زوال پذیر سکولز کو کیوں نہیں دیا جارہا ؟اگر اے سی اور ڈی سی نے ماڈل سکولز بنانے ہیں تو اضلاع کے زوال پذیر سکولز انکو کیوں نہیں دیے جارہے ؟ کیا منظور شدہ ہیڈز کی تعیناتی کرکے انکو سٹاف دیکر ماڈل کیونکر نہیں بنایا جاسکتا؟
اے سیز اور ڈی سیز کے ماتحت تحصیل وائز ادارے پبلک کے لیے کیا ڈیلیور کر رہے ہیں ؟
کیا ڈی سی سے لیکر اے سی تک ضلع سے تحصیل تک انکے ماتحت اداروں ان سمیت وقت پر حاضری ہو رہی ہے ؟ کیا انکے ماتحت ادارے اپنے فرائض سر انجام دے رہے ہیں ؟ یقینا یہ سوالات سب کے ذہن میں ہیں ؟
اس سے پہلے بھی جو ادارے ماڈل بنائے گئے تھے وہ ماڈل کیونکر نہ رہ سکے ؟ کیا تعلیمی اداروں کی پرائیویٹائزیشن سے سے اسکی پراپرٹی جو ڈونیشنز سے بنی ہے اور عوام کو فری تعلیم ۔بکس اور عمارتیں ملی ہیں قائم رہے گی یقینا نہیں ۔غریب دیہاڑی دار ۔مزدور محنت کش کے بچے اب فیس کا بوجھ برداشت نہیں کر پائینگے ۔دور دراز علاقوں میں یہ تجربہ نا صرف ناکام ہوگا بلکہ جوموجودہ حالات ہیں ان کی سنگینی میں بھی اضافہ کرے گا کل ادارے زمین بوس ہو جائینگے ۔
کیا ملک پاکستان کے قومی خزانے سے چلنے والے ادارے اگر ڈیلیور کرنے سے ناکام ہیں تو خیراتی ادارے اس نظام کو کیونکر درست کر پائینگے ؟
لہذا کسی پرائیویٹ مشنری ادارہ کی کامیابی مخصوص سکولز علاقے کو دیکھ کر کروڑوں بچوں کے مستقبل سے نہ کھیلا جائے ۔پنجاب جیسے گنجان آباد ۔فرقہ پرست معاشرہ میں نئی نظریاتی اور مذہبی کھنچا تانی سے اداروں کو محفوظ رکھا جائے ۔سیکرٹری ایجوکیشن سے لیکر پرائمری سکولزکے ٹیچر تک اس پڑھے لکھے مکینزم سے عوام کو فائدہ دینے کے نظر ثانی کی ضرورت ہے ۔
وہ تمام امور چاہے سیاسی ہوں یا غیر تدریسی ڈیوٹیز ۔کیڈر اور مضمون وائز ٹیچرز کی خالی اسامیوں پر یا مستقل ہیڈز کی تعیناتیاں ہوں ان پر ازسرے نو جائزہ کی ضرورت ہے ۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں